ہندوستان ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ یہاں لگ بھگ دو تہائی آبادی دیہی علاقوں میں رہائش کرتی ہے۔ جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں، کہ دیگر خدمات کی طرح طبی خدمات کی حالت بھی ہمارے ملک میں بہت اَچّھی نہیں ہے۔ دیہی علاقوں میں تو اور بھی برا حال ہے۔ دیہی عوام کو اپنی صحت سے متعلق مسائل کے حل کے لئے شہروں کی طرف بھاگنا پڑتا ہے۔ کئی بار تو اُن کو جھولاچھاپ ڈاکٹروں کی خدمات لینے کو مجبور ہونا پڑتا ہے۔ ایسی حالت میں اُن کو کئی بار اپنی محنت کی کمائی گنوانے کے ساتھ ہی اپنی جان بھی گنوانی پڑتی ہے۔ دوسری طرف، سوداگری کی اَندھِی دوڑ میں شہروں سَمیت چھوٹے-چھوٹے قصبوں میں بھی پرائیویٹ ہسپتالوں اَور نرسنگ ہوم کھُلتے جا رہے ہیں۔ وہاں سہولیات کے نام پر نہ تو تربیت یافتہ ڈاکٹر ہوتے ہیں اَور نہ ہی مریضوں کے مناسب علاج کے اوزار۔ پھر بھی وہ اشتہارات کے ذریعے بَڑے-بَڑے دعوے کر مریضوں کو اپنی طرف مسحور کرتے رہتے ہیں اَور اُن کی دُکان داری چلتی رہتی ہے۔ مُنہ مانگی قمیت دینے کے بعد بھی صارفین اِس بات کے لئے مطمئن نہیں ہوتا، کہ اُس کو صحیح اَور مناسب علاج مِل پائےگا۔ ایسی حالت میں صارفین کو استحصال سے بچانے کا واحد راستہ اُن کو بیدار کرنا ہے۔
طبی کاروبار ایسا ہے جِس میں عام آدمی کو طبی طریقوں یا دواؤں کی معلومات نہیں ہوتی۔ وہ پوری طرح سے ہسپتال اَور نرسنگ ہوم کے اہلکاروں اَور ڈاکٹروں پر منحصر ہوتے ہیں۔ ایسے میں چھوٹِی سی لاپرواہی مریض کی جان لے سکتی ہے۔ لیکِن کیا ہرایک معاملے میں ڈاکٹر کو لاپرواہی کے لئے قصوروار ماننا ٹھیک ہے ؟ اَگر ایسا ہوا تو کوئی بھی ڈاکٹر اپنے کام کو مستقل مزاجی سے نہیں کر پائےگا۔
ایک چوکس صارف کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک ڈاکٹر کا کام کس طرح کا ہوتا ہے ؟ مریض کے متعلق ڈاکٹر کے فرض کون-کون سے ہوتے ہیں ؟ طبی کاروبار میں لاپروائی کب مانی جاتی ہے ؟ ایک ڈاکٹر کی ڈیوٹی کیا ہوتی ہے ؟ اِس سب باتوں کو ہم مندرجہ ذیل نقاط میں سمجھ سکتے ہیں :
عام معنی میں لاپروائی کا مقصد کِسی کام کو مناسب طریقے سے نہ کرنا یا لاپرواہ طورپر کرنا ہوتا ہے۔ لیکِن قانون کی نظر میں صرف ٹھیک طریقے سے کام نہ کرنا ہی لاپروائی نہیں مانی جاتی ہے۔
قانون کی نظر میں لاپروائی تب مانی جائےگی جب اُس میں درج ذیل تین باتیں موجود ہوں-
یعنی جب کوئی شخص (ڈاکٹر)اپنی کام یا ذمہ داری کی تکمیل ٹھیک طریقے سے نہیں کرتا، لاپروائی سے کرتا ہے اَور اُس کے نتیجے میں دُوسرے شخص (مریض)کو ضرر یا نقصان پہُنچتا ہے تو قانونی نظر سے اِس کو لاپروائی مانا جاتا ہے۔
لاپروائی کو ٹورٹ اَور جرم دونوں مانا گیا ہے۔ ٹورٹ کے تحت معاوضہ کے لئے سِوِل عدالت میں مقدمے دائر کئے جا سکتے ہیں اَور جرم کی شکل میں فوجداری عدالتوں میں۔ " صارفی تحفظ قانون، 1986 " کے تحت بھی اس طرح کے معاملات کی شکایت درج کراکر معاوضہ کی مانگ کی جا سکتی ہے۔
یہاں اِس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے، کہ علاج میں ہوئی لاپروائی کے معاملے میں شکایت کنندہ کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ مخالف پارٹی (ڈاکٹر)کی محتاط رہنے کی ڈیوٹی تھی اَور اُس نے اِس کام کی خلاف ورزی کی جِس کے نتیجے میں شکایت کنندہ یا اُس کے خاندانی کو نقصان پہُنچا ہے۔
طبی خدمات عطا کرنے والے ایک ڈاکٹر کی درج ذیل ڈیوٹی مانی گئی ہے :
جب کوئی مریض کِسی ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے جاتا ہے، تو اِس اعتماد کے ساتھ جاتا ہے، کہ ڈاکٹر اُس کے علاج میں معقول احتیاط برتےگا۔ اَگر ڈاکٹر اپنے فرض کی تکمیل میں کوئی لاپروائی کرتا ہے، جِس کے نتیجے میں مریض کو کوئی ضرر یا نقصان ہو جاتا ہے تو ڈاکٹر کو اِس کے لِئے ذمہ دار مانا جائےگا۔
لیکِن، اَگر ڈاکٹر معقول احتیاط برتتے ہوئے علاج کاروبار میں قابلِ قبول طریقہ سے کِسی مریض کا علاج کرتا ہے اَور مریض کو کِسی قسم کا ضرر یا نقصان ہو جاتا ہے، توبھی ڈاکٹر کو اُس کے لِئے ذمہ دار نہیں مانا جائےگا۔
دُوسرے، الفاظ میں کہیں تو ڈاکٹر کو کِسی مریض کا علاج کرنے میں اپنے علم اَور مہارت کا استعمال کرتے ہوئے معقول احتیاط برتنا ضروری ہے۔
جب کوئی شخص (ڈاکٹر)کِسی مریض کو طبی خدمات دینے اَور علاج کرنے کو تیار ہوتا ہے تو وہ انفرادی طور پر درج ذیل قول و قرار دیتا ہے کہ :
(لکشمن بال کرِشن جوشی بنام ترِمبک بابو گونڈبولے، ۓ۔ آئی۔ آر۔ 1999 سپریم کورٹ
مریض کی دیکھ بھال کرنا ایک ڈاکٹر کا قانونی فرض ہے۔ ڈاکٹری جانچکے وقت مریض اَور ڈاکٹر کے درمیان ایک ٹھیکہ ہو جاتا ہے، کہ مریض کا علاج کرنے والا ڈاکٹر احتیاط برتےگا۔ ڈاکٹر کے ذریعے اپنے فرائض کی تکمیل نہ کئے جانے پر، ہونے والے نقصان کے لئے ڈاکٹر ذمہ دار ہوںگے۔ ڈاکٹر کو مریض کی دیکھ-بھال کرنے کے لئے احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ جب کوئی آدمی طبی صلاح دینے اَور علاج کرنے کو تیار ہو جاتا ہے تو وہ ایک طرح سے قول و قرار دیتا ہے، کہ اُس کے پاس اس سے متعلق مہارت اَور علم ہے اَور اِس میں احتیاط برتنا اُس کا فرض ہے۔ مریض کو کیا علاج دیا جائےگا اِس موضوع پر احتیاط برتنا بھی اِس میں شامل ہے۔ اِس میں سے کِسی ڈیوٹی کی خلاف ورزی مریض کو یہ حق پیش کرتا ہے، کہ لاپروائی کے لئے ڈاکٹر کے خلاف کاروائی کرے۔ عدالتوں کے ذریعے کئے گئے مختلف فیصلوں میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ایک ڈاکٹر کے لئے لاپروائی کا کیا مطلب ہے ؟ عدالت کے مُطابق، کوئی ڈاکٹر صرف اس لئے لاپروا نہیں مانا جا سکتا کہ مریض کے ساتھ کوئی ناپسند واردات گھٹ گئی۔ ڈاکٹر کو قصوروار صرف تبھی مانا جائےگا جب اُس میں ایک ماہر ڈاکٹر کے لیول کی کمیں ہو یا اُس نے ایسا کام کیا ہو، کہ اُس کے مددگار یہ کہیں کہ اصل میں اِس معاملے میں لاپروائی کی گئی۔ ڈاکٹر کے ذریعے لاپروائی کئے جانے کے تعلق میں مندرجہ ذیل حقائق ہو سکتے ہیں :
کوئی ہسپتال اَور نرسنگ ہوم، اُن کے ماتحت کام کر رہے اسٹاف یا ڈاکٹر کی لاپروائی ہونے پر، مریض، ڈاکٹر یا وابستہ نرسنگ ہوم سے معاوضہ کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ ہسپتال کی جوابدہی کو ظاہر کرتے ہوئے عدالت نے کہا ہے، کہ " جب کبھی کِسی ہسپتال میں کِسی مریض کو علاج کے لئے لیا جاتا ہے تو اُس مریض کے متعلق احتیاط برتنا اُس کا فرض ہو جاتا ہے۔ مریض کے علاج کے تعلق میں کئی کام ایسے ہوتے ہیں جِس کو ہسپتال کے معاونین کے ذریعے کیا جاتا ہے، معاونین کے ذریعے کی گئی لاپروائی کے لئے وابستہ شخص کے ساتھ-ساتھ ہسپتال انتظامیہ کاملاً ذمہ دار ہوتا ہے۔ " ڈاکٹر پر لگنے والے لاپروائی کے الزام ختم ہو سکتے ہیں اَگر اُس نے جو کام کیا ہے وہ منظور شدہ طریقہ سے کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر کے ذریعے لاپروائی کرنے پر مجرمانہ اَور سِوِل دونوں قسم کی کاروائی کی جا سکتی ہے۔ ہندوستانی ضابطہ تعزیرات کی دفعہ 304 (ک)کے تحت، مجرمانہ لاپروائی کے لئے کِسی ڈاکٹر کو سزا دی جا سکتی ہے۔ اِس کے تحت جو کوئی بھی شخص مجرمانہ انسانی-قتل کی زمرہ میں آنے والا بیقراری یا لاپروائی کا کوئی کام کرکے کِسی شخص کو قتل کرتا ہے، اُس کو دو سال تک کے قید یا جرمانے یا دونوں کی سزا ہو سکتی ہے۔ یہ قابل دست اندازی، ضمانت کے لائق اَور غیر معاہدہ کے لائق ہے یعنی-
قابل دست اندازی : گناہ گار کو کِسی پولس افسر کے ذریعے بِنا وارنٹ کے گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
لائق : جِس شخص کو گرفتار کیا جاتا ہے وہ ضمانت پر چھوڑے جانے کا حقدار ہے۔
غیر معاہدہ لائق : اِس جرم میں مشکوک گناہ گار اَور متاثر شخص یا اُس کے نمائندے کے درمیان معاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔
قانونی طور پر ڈاکٹر کو کچھ خصوصی اختیارات حاصل ہیں جو درج ذیل ہیں :-
اَگر کوئی مریض ڈاکٹر پر اعتماد کرکے یہ کہتا ہے، کہ اُس کی بیماری کے بارے میں کِسی غیر کو نہ بتایا جاۓ تو ڈاکٹر اطلاع کو نہ ظاہر کرنے کے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کر سکتا ہے۔
کِسی اطلاعاتی بیماری سے متاثر مریض کے معاملے میں رضامندی لینا ضروری نہیں ہے۔ جیسے ایڈس ایچ۔ آئی۔ وی۔ کے مریض کے معاملے میں سپریم کورٹ نے بندوبست کیا ہے، کہ جب مریض کے ہونے والے شوہر / بیوی کو ایچ۔ آئی۔ وی۔ انفیکشن کا خطرہ ہو تو ڈاکٹر / ہسپتال کی یہ ڈیوٹی ہوگی کہ وہ وابستہ شخص کو خطرہ کی اطلاع دے۔
ایسا نہ کرنے پر ڈاکٹر / ہسپتال ہندوستانی ضابطہ تعزیرات کی دفعہ 269 اَور 270 کے تحت جرم کے شراکت دار مانے جائیںگے۔
صارفی تحفظ قانون، 1986 کے لاگو ہونے سے پہلے صارفین کے مسائل کے متعلق مجموعی نقطہٴ نظر کی کمی تھی۔ اِس قانون کے لاگو ہونے کے بعد صارفی عدالتوں نے طبی خدمات میں کی گئی لاپروائی کے تعلق میں مریض یا اُن کے نمائندوں سے شکایات حاصل کرنا شروع کر دیا۔ شکایت کاروں کے ذریعے صارفی عدالتوں میں مختلف دلیلیں دی گئی، جیسے، اُن کا ماننا تھا کہ قانون کے تحت ' خدمت ' لفظ کے معنی یہ ہے کہ کِسی قسم کی ایسی خدمت جو اُس کے ممکنہ استعمال کنندہ کو میسّر کرائی جاتی ہیں۔ یہ وضاحت طبی علاقے سے جُڑے لوگوں پر بھی لاگو ہونے کے لئے کافی ہے۔ شکایت کاروں کی مختلف دلیلوں پر عدالت نے صارفی تحفظ قانون کے آئینی جواز کو منصفانہ ٹھہرایا اَور انتظام کیا کہ ڈاکٹر / ہسپتال اَور نرسنگ ہوم قانون کے دائرے میں آتے ہیں۔ صارفی تحفظ قانون طبی کاروبار پر کوئی
فاضل ذمہ داری نہیں ڈالتا۔ اِس قانون کے منظور ہونے سے پہلے ڈاکٹروں کو سِوِل عدالتوں کے ذریعے ڈاکٹری لاپروائی کے لئے معاوضہ کا ذمہ دار مانا جاتا تھا۔
طبی کاروبار کو صارف عدالتوں کے دائرہ میں لانے پر متعلقہ کاروبار سے جُڑے لوگوں کے ذریعے اعتراض جَتایا گیا اَور یہ دلیل دی گئی، کہ صارف عدالتوں کے پاس مہارت نہیں ہے، اس لئے وہ ایسے معاملات پر فیصلہ دینے کے لئے پابند نہیں ہیں۔ اُن کا ماننا تھا کہ ڈاکٹر آیوروید کونسلوں کے تادیبی قابو میں کام کرتے ہیں اَور اُن پر ہندوستانی آیوروید کونسل / ریاست آیوروید کونسلوں کے تحت ہی تادیبی کاروائی کی جانی چاہئے، اِس لئے اُن کو صارفی تحفظ قانون کے دائرے میں لانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس پر اعتراض دِکھاتے ہوئے سپریم کورٹ نے اِس کو استدلالی طورپر نامنظور کر دیا۔
صارفی تحفظ قانون، 1986 کے مُطابق، صارف فورم میں معاملہ درج کرانے کی لئے شکایت کنندہ کا صارف ہونا ضروری ہے-
کیا طبی خدمات حاصل کرنے والا ہرایک مریض صارف ہے ؟
صارفی تحفظ قانون کے مطابق، اَگر کوئی آدمی قیمت دےکر کوئی مادہ یا خدمات حاصل کرتا ہے تو وہ صارف کے زمرہ میں آتا ہے۔ اِس لئے صارف فورم میں وہی آدمی شکایت درج کرا سکتا ہے، جو قیمت ادا کرکے طبی خدمات حاصل کیا ہو۔
طبی خدمات کی بات کی جائے تو ہم اُس کو اہم تین زمروں میں تقسیم کر سکتے ہیں
لہذا پہلے اَور تِیسرے زمرہ میں آنے والے مریض ہی طبی خدمات میں کمی یا لاپروائی ہونے پر صارف فورم میں شکایت درج کرا سکتے ہیں۔
ماخذ : بھارتیہ عوامی انتظامیہ ادارہ، نَئی دِلّی۔
Last Modified : 4/8/2020