অসমীয়া   বাংলা   बोड़ो   डोगरी   ગુજરાતી   ಕನ್ನಡ   كأشُر   कोंकणी   संथाली   মনিপুরি   नेपाली   ଓରିୟା   ਪੰਜਾਬੀ   संस्कृत   தமிழ்  తెలుగు   ردو

کسرت/ورزش کی اقسام

آئسوٹونک

کچھ کسرتوں/ورزشوں میں کچھ عضلات با قاعدہ طور پر  ڈھیلے اور سکڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کسرتوں میں پٹھوں کا تناؤ بنا رہتا ہے لیکن اس میں پٹھوں کی ریشوں کی لمبائی کم و زیادہ ہوتی ہے۔ ان کو ہم-طناب (آئسوٹونک) کسرتیں کہتے ہیں۔
جس کسرت میں ہلچل ہو اس کو آئسوٹونک کسرت کہا جاتا ہے۔ بھاگنا، دوڑنا، تیرنا، پہاڑ چڑھنا، سائیکل چلانا یا چلنا، گیند گیم والے کھیل کود جیسے ٹینس وغیرہ آئسوٹونک اکسرسائج کی مثال ہے۔

آئیسومیٹرک

کوئی آدمی کافی دیر تک کوئی بھاری چیز اٹھاتا ہے، یا وزن کو ہاتھوں سے آگے دھکیلتا ہے۔ تو اس میں ہاتھوں میں کوئی حرکت نہیں ہوتی ہے۔ لیکن بل/زور تو لگ رہا ہے اس لئے توانائی بھی استعمال ہو رہی ہے۔ لیکن عضلات کی ریشوں کی لمبائی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ایسے عمل کو آئسومٹرک (ہم-طناب) کہتے ہیں۔ اس کسرت میں کچھ غصہ کے ساتھ زور لگایا جاتا ہے اس لئے بغیر ہلچل ہی پٹھوں کو کام کرنا پڑتا ہے۔ اس قسم کی کسرت/ ورزش سے پٹھوں کا زور  اور ہیئت جلدی بڑھتا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کے ہفتے میں تین بھی دن یہ کسرت کرنا عضلہ کو پریاپت ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے یہ ہردن کرنے کی جررت نہیں۔ جم کے الگ الگ مشنس میں ویسے کافی طریقے میسّر ہے۔

آئیسومٹرک اور آئیسوٹونک

متوازن کسرتوں سے عضلہ تیزی سے بنتی ہے اس لئے جسم کی نمائش کرنے والے لوگ یہ والی کسرتیں کرتے ہیں۔ متوازن کسرتیں پہلوانوں اور کم دوری کا دوڑ لگانے والوں کے لئے زیادہ مفید ہوتی ہیں۔ زیادہ تر کسرتوں میں ان دونوں کو شامل کیا جاتا ہے۔ تاکہ طاقت اور قوت-برداشت دونوں بڑھائی جا سکیں۔ کئی کھیلوں میں اور کاموں میں دونوں قسم کے مادہ شامل ہوتے ہے۔ مثال کے طور پر کشتی میں ہلچل اور مدافعت کے خلاف زور لگانا ہوتا ہے، لیکن ہلچل کا استعمال کم ہوتا ہے۔ مان لیجئے کوئی آدمی سائیکل-رکشا کھینچ رہا ہے یا جب ایک مزدور ایک گاڑی دھکیلتا چلتا ہے، اس میں پیروں سے ہلچل اور ہاتھوں سے مستحکم قوت لگایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے یہاں آئیسومیٹرک اور آئیسوٹونک دونوں استعمال ہو رہے ہے۔

اینروبکس-فوری کسرت/ورزش اقسام

کچھ کھیل اقسام 2-3 منٹوں سے کم وقت چلتے ہیں۔ اس میں سانس زیادہ چلنے کے پہلے ہی ہم ٹھہر جاتے ہے۔ ہمارا جسم اس کے لئے مستحکم عضلہ محفوظ توانائی کا استعمال کرتا ہے۔ مثال کے طور پر سو-دو سو میٹر دوڑنا، وزن اٹھانا، جمنسٹکس یا رک رک کر چلنے والے کھیل جیسے کہ کبڈّی، جوڈو وغیرہ۔

ایروبکس-دم-سانس والی کسرت/ورزش کی اقسام

متحرک اور ہلچل والی کسرت/ورزش اقسام، جیسے کہ دوڑنا، تیرنا، بیڈمنٹن، ٹینس، چلنا وغیرہ۔ اس میں عضلہ حسب ترتیب : کام میں آتے ہے۔ ایروبکس میں اسی طرح کی کسرت کا استعمال ہوتا ہے لیکن مدت زیادہ ہوتی ہے۔

چلنا

چلنا ایک اوسط درجے (ہلکی پھلکی) اور آسان کسرت ہے۔ یہ تمام عمر کے لوگوں کے لئے اور دل کی بیماریوں سے متاثر لوگوں کے لئے مفید ہوتا ہے۔ اس سے حفاظت بھی ہوتی ہے اور بیماریاں بھی دور  ہوتی ہیں۔ جسمانی فوائڈ کے علاوہ اس سے چستی اور آرام ملتا ہے۔ لیکن تھوڑی دیر چلنے سے وزن اتنا کم نہیں ہوتا۔ ایک کلومیٹر چلنے میں قریب 50 کیلوری توانائی صرف ہوتی ہے (اتنی توانائی ایک کپ چائے سے مل جاتی ہے)۔ پیدل سفرزیارت سے، (جو اب لوگ زیادہ نہیں کرتے) جسم میں درستگی آتی ہے۔ کئی مہینوں تک روز چلنے اور ساتھ میں منضبط کھانے سے فاضل چربی نکل جاتی ہے اور چستی لوٹ آتی ہے۔ پہاڑوں پر چڑھنے کے بھی یہی فائدے ہیں۔

کھیل


اجتماعی کھیل کود اکیلے کسرت کرنے سے زیادہ مفید ہے۔ کھیلوں میں لطف بھی آتا ہے اور جسمانی کسرت بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن سب کھیل ایک جیسے سودمند نہیں ہوتے۔ کھیل کھیل میں کچھ فرق ہوتا ہے، جیسے :

  • جسم کا کون سا عضو استعمال ہو رہا ہے وغیرہ۔
  • کھیل کی رفتار (فٹ بال ہاکی گتمان، پر کرکٹ اتنا نہیں)
  • کتنی طاقت چاہئیے (کشتی میں طاقت کا کام ہے، لیکن بیڈمنٹن میں نہیں)
  • پٹھوں کا تال میل (رائفل شوٹنگ میں ہاتھ، آنکھ اور دیگر جسم کے تال-میل کی ضرورت ہے)
  • سہنے کی قوت اور تنئتا (کرکٹ میں دن بھر کھیلنا پڑتا ہے)

کچھ اہم-ترین نکات


کسرت/ورزش کا وقت

اکثر لوگ کسرت کے لئے باقاعدہ اور معینہ وقت رکھنا پسند کرتے ہیں۔ ایسا کوئی ضروری نہیں ہے کہ کسرت کسی متعینہ وقت پر ہی کی جائے۔ کسرت دن کے کسی بھی وقت میں کی جا سکتی ہے۔ حالانکہ نظم و ضبط سے فائدہ تو ہوتا ہی ہے۔ کھانا کھانے کے فوراً بعد کسرت نہیں کرنی چاہئیے۔ کم سے کم ایک گھنٹے کا آرام کرنا ضروری ہوتا ہے۔
آہستہ اور استحکام سے کسرت ہمیشہ دھیمے دھیمے ہی کریں تاکہ دل پر بناوجہ بوجھ نہ پڑے۔ اگر کسی کے ساتھ کسرت کر رہے ہوں تو کسرت کرتے وقت ساتھ ساتھ بات بھی کرتے جائیں۔ اس سے رفتار دھیمی اور محفوظ رہے‌گی۔


کیلوری خرچ کرنا

بہت سے لوگ جسم کی چربی (موٹاپا) کم کرنے کے لئے کسرت کرتے ہیں۔ لیکن یہ آسانی سے نہیں ہوتا ہے۔ جسم میں دستیاب گلوکوز کسرت کے پہلے 20 منٹ کے لئے توانائی دستیاب کروا دیتا ہے۔ اسی مدت کے بعد چربی جلتی ہے۔ بھاری کسرت میں بھی بہت زیادہ اورجا خرچ نہیں ہوتی۔ چربی ایک کم وزن والا بافت ہوتا ہے۔ اس لئے تھوڑا سا بھی وزن کم کرنے کے لئے بہت ساری چربی کے جلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وزن کم ہونے سے بہت پہلے ہی آدمی پتلا دکھنے لگتا ہے۔ وزن پیمائش کی مشین کی بجائے شیشہ میں دیکھنا ایک بہتر رہنما ہے۔ چربی کتنی کم ہوئی ہے یہ معلوم کرنے کے لئے خواتین کو کمر کے حصہ پر اور مردوں کو پیٹ پر دھیان دینا چاہئیے۔ کسرت کے علاوہ کھانے میں چربی پر قابو بھی وزن کم کرنے کے لئے ضروری ہے۔ عموماً کثرت سے 200 سے 300 سے زیادہ کیلوری نہیں جل پاتی۔ جبکہ ہم روز لگ-بھگ 2000 کیلوری کھا لیتے ہیں۔

رفتار

کچھ لوگ زیادہ تیز رفتار سے کسرت کر پاتے ہیں اور اچھل-کود کم پاتے ہے۔ یہ ان کی عضلات/پٹھوں کی ریشوں پر منحصر کرتا ہے، جو کہ دو طرح کے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں میں ایسے ریشے زیادہ ہوتے ہیں جن سے رفتار ملے اور کچھ میں ایسے ریشے زیادہ ہوتے ہیں، جو دھیمے ہوتے ہیں۔ ہر کسی کو اپنی رفتار کی پہچان کرنی ہوتی ہے۔ اور اسی حساب سے مناسب کسرت یا کھیل کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔


کسرت کا مزہ/لطف لیں

کسرت شروع کرنے پر کچھ دنوں تک کثرت سے تھکان ہوگی۔ کچھ دنوں میں اس میں مزہ آنے لگے‌گا۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کیونکہ با قاعدہ طور پر تھکنے سے جسم کی برداشت کی قوت بڑھ جاتی ہے۔ دل اور پھیپھڑوں کی قوت بڑھ جاتی ہے اور عضلات زیادہ گلائیکوجن یکجا کرنے لگتی ہیں۔ پٹھوں کا ریشہ بہتر اور بڑے ہو جاتے ہیں۔ کثرت سے دماغ کے ذریعے کچھ حیاتی کیمیا  تحلیل ہوتے ہیں، جس کے وجہ سے ہم خوشی اور پرجوش محسوس کرتے ہیں۔ کسرت کے معمول کو مزیدار بنانے کے لئے نئی-نئی کسرتیں کی جا سکتی ہیں۔ الگ الگ پٹھوں کے گروپوں کی کسرتیں کرنا بھی اچھا رہتا ہے۔ جیسے آپ پیدل چلنے کے بجائے تیرنا شروع کر سکتے ہیں۔ تیرنے میں پیٹھ اور ہاتھوں کی عضلات کی کسرت ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھی با قاعدہ طور پر کسرت کر پانا ممکن نہیں ہو پاتا۔ لیکن ہفتے میں کم سے کم چار دن 30 منٹ تک کسرت کرنا ٹھیک رہے‌گا۔
کسرت تمام عمر کی خواتین اور مردوں کے لئے  تجرباتی ہوتی ہے۔ لوگ آج اس کی جگہ ٹیلی-ویژن دیکھنے اور دیگر کام کرنے میں زیادہ وقت گزارنے لگے ہیں۔ بیشتر لوگ با قاعدہ طور پر کسرت نہیں کرتے۔ یہ حالت بدلنی چاہئیے۔

کسرت کے پہلے اور بعد میں یہ کریں۔

اچانک کسرت کرنے سے انیروبک (ایروبی/ہواباش) عمل شروع ہو جاتا ہے۔ یہ جسم کے لئے اچھا نہیں ہوتا۔ کسی بھی سخت محنت یا کسرت کرنے سے پہلے چند منٹ جسم کو ہلکا اور کھلا بنانے کے لئے کچھ طریقے دیے جاتے ہے۔ کرکٹ کے میدان میں یہ ہم اکثر دیکھتے ہے۔ مثال کے طور پر نیچے بیٹھ‌کر پیر لمبا کرکے ہاتھوں سے پاؤں پکڑنا، دونوں ہاتھ پھیلانا یا کندھے سے اوپر کرنا، کھڑے رہ‌کر کمر میں جھک‌کر پاؤں پکڑنا، ہلکی دوڑ وغیرہ۔ جوڑ مقدس کتاب میں کئی سارے یوگ آسن یہی کام کرتے ہے۔ سورج-نمسکار بھی اسی کی ایک اچھی مثال ہے۔ ان طریقوں سے پیشی اور جوڈون کا لچیلاپن بڑھتا ہے اور اس سے کھیل کود میں چوٹے کم لگتی ہے۔ اس کو وارم-اپ بھی کہتے ہے۔ اس کے سبب جسم کا درجہءحرارت کچھ مقدار میں بڑھ‌کردوران-خون بھی بڑھتا ہے جس سے کھیل کود کے لئے جسم تیار ہوتا ہے۔ اس سے دل پر اچانک تناؤ پیدا ہونا ہم ٹال سکتے ہے۔ ان جسم گرمانے والی کسرتوں سے کڑا پن کم کرنے، ترسیل بڑھانے اور پٹھوں کو تاننے میں مدد ملتی ہے۔


جسم گرمانا اور پسینہ

کثرت سے جسم میں کافی توانائی نکل‌کر گرمی پیدا ہوتی ہے۔ یہ گرمی پسینہ اور سانس میں نکل پڑتی ہے۔ عموماً مردوں میں گرمی زیادہ پیدا ہوتی ہے اور خواتین کو کسرت کرتے وقت پسینہ کم آتا ہے۔ ہندوستان جیسے گرم ہوا والے ملک میں پسینہ کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ شاید اسی سبب موسم کے مطابق کسرت کم یا زیادہ کرنے کے لئے کہا جاتا ہے۔ موسم-سرما میں کسرت زیادہ اچّھی لگتی ہے یہ ہم سب جانتے ہے۔ پسینہ سے کسرت کی تیزی کا اندازہ لگتا ہے۔ پسینہ آنے سے جسم ٹھنڈا ہوتا ہے اور کثرت سے پیدا ہوئی گرمی کم ہوتی ہے۔ پسینہ آنا ماحولیات پر بھی منحصر کرتا ہے۔ اور ویسے بھی کچھ لوگوں کو زیادہ پسینہ آتا ہے اور کچھ کو کم۔


کسرت کے بعد واپس ٹھنڈے ہونا

کسرت کے بعد واپس ٹھنڈے ہونا بھی اہم ہے۔ کسرت اچانک نہیں روکنی چاہئیے۔ یہ 5 سے 10 منٹ کے دوران آہستہ آہستہ بند کرنی چاہئیے۔ اس سے دل کو اپنے یکساں حالت میں پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔ کھیل کود یا کسرت ختم ہونے کے بعد پانچ-دس منٹ تک جسم کو ٹھنڈا کرنے کے لئے وقت دینا ضروری ہے۔ اس سے سانس پر سانس دھیمی رفتار میں آ جاتا ہے، پسینہ نکل جاتا ہے، دل کی رفتار صحیح ہو جاتی ہے اور عضلات کو آرام ملتا ہے۔ اس کو کول ڈاؤن کہتے ہے۔


کسرت اور کھانا

کسرت کرنے کے لئے توانائی ضروری ہے ویسے ہی عضلات کو پروٹین بھی۔ پروٹین اگرکم ملے تو پٹھوں کی صحت ٹھیک نہیں رہے‌گا۔ عضلات میں کافی مقدار میں ریشے رہیں اسلئے پروٹین کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ ہم جب کھانا کھاتے ہیں اس کی منتقلی توانائی اور عضلات  میں ہوتی ہے۔ فاضل کھانا چربی کی شکل میں جمع ہوتا ہے اس لئے وزن کا کنٹرول ہمیں کھانے کے بارے میں صحیح ہدایت دے سکتا ہے۔


چربی کم کرنے کے لئے کسرت

چربی میں خمیر کے مقابلے میں دوگنی توانائی ہوتی ہے۔ کسرت کرتے وقت چربی جلاکر توانائی پانے کی حالت آدھے گھنٹے کے بعد ہی آتی۔ اس لئے عام طور پر عمومی کسرت میں چربی کا استعمال نہیں ہوتا۔ کوئی آدمی اگر موٹاپا کم کرنے کے لئے کسرت کر رہا ہو تب کسرت کا وقت خوب بڑھانا چاہئیے جیسے کہ دو گھنٹے یا اور بھی زیادہ۔ موٹاپا کم کرنے کے لئے کسرت کے ساتھ کھانے پر کنٹرول ضروری ہے۔ ویسے ہی اس کے لئے کچھ مہینوں کا پروگرام بنانا مناسب ہوگا اور ہردن 100-200 گرام بھی کم ہوا تو اچھا ہی سمجھیں۔


کسرت بنام کھیل-کود

بھاری گیند پھینکنے / جھیلنے سے چھاتی پیٹھ اور ہاتھوں کی کافی کسرت ہوتی ہے۔ صرف کسرت کے بجائے کھیل-کود کئی معنوں میں اچّھا ہوتا ہے۔ کھیلوں میں بھی اکّا دکّا کھیل جیسے کشتی کے بجائے اجتماعی کھیل جیسے فٹ بال، ہاکی، کبڈّی وغیرہ زیادہ فائدہ-مند ہوتے ہے۔ اس میں جسمانی فائدے تو ہوتے ہی ہیں لیکن دماغی اور سماجی منافع بھی ہے۔ اسلئے کثرت سے زیادہ کھیل-کود ہمیشہ پسند کرتے ہیں۔


رفتار بنام قوت/زور

کسی بھی کسرت میں ہر آدمی کو ایک زیادہ سے زیادہ رفتار حاصل ہوتی ہے۔ لیکن الگ الگ آدمی میں یہ رفتار اور تیزی الگ الگ ہوتا ہے۔ جیسے کہ کچھ لوگ دوڑنے میں کم لیکن قوت-اساس کھیلوں میں زیادہ ماہر ہوتے ہیں۔ اس فرق کا سبب ہر کسی کی عضلات کی بنیادی/اصل ساخت میں ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کے جسم کی عضلات تیز ہلچل والے ریشوں سے بنے ہوتے ہیں۔ ان کی ہلچل اور رفتار تیز ہوتی ہے۔ ظاہر  ہے کہ ان کو ایتھلیٹکس یعنی بھاگ-دوڑوالے کھیل کود میں زیادہ دلچسپی اور مہارت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس کچھ آدمیوں میں عضلات دھیمی رفتاروالے ریشوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر قوت-والے کھیلوں میں حصہ لیتے ہیں جیسے کی کشتیاں، وزن تولنا۔ تربیت-دہندہ کو یہ جاننا ضروری ہے کہ کون سا آدمی کس کھیل میں زیادہ کامیاب ہو سکتا ہے۔ اہلیت کے مطابق کھیل کود منتخب کرنا کامیابی کے لئے بہت ضروری ہے۔

عمر، جنس اور کسرت


کس آدمی کو کس طرح کی کسرت کرنی چاہئیے یہ اس کی عمر، جنس اور کام کے مطابق ان سب پر منحصر رہتا ہے۔

  • خواتین لگ-بھگ وہ تمام کسرتیں کر سکتی ہیں جو کہ مرد کر سکتے ہیں۔ حالتِ-حمل کے دوران اور بچّے کے جنم‌کر بعدکے وقت میں صرف کچھ ہی طرح کی کسرتیں کرنی چاہئیے۔
  • 14 سال تک کے بچّوں کے لئے کسرت کرنے سے بہتر کھیلنا کودنا ہوتا ہے۔ لیکن ان سے آسن اور پرانایام شروع کروائے جا سکتے ہیں۔ اس کے بعد کسرت کو ان کی روزمرہ کا حصہ بنایا جانا چاہئیے۔
  • بڑھاپے میں کسرت کا خاص مقصد لچیلاپن بنائے رکھنا اور دل اور پھیپھڑوں کی صلاحیت اور صحت بنائے رکھنا ہوتا ہے۔
  • جو لوگ سخت جسمانی محنت کرتے ہی۔ جیسے مزدور، کسان، گھر یا کھیتوں میں کام کرنے والی عورتیں ، وہ پورے دن کے تھکا دینے والے کام کے بعد کسرت کرنے کے لئے خواہش-مند نہیں ہوتے۔ مگر ان کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ خاص کسرت کریں۔ جو کام وہ کرتے ہیں اس سے عضلات مضبوط ہوتی ہیں اور ان کی  قوتِ-برداشت بڑھتی ہے مگر اس سے دل اور پھیپھڑوں کی قوت، لچیلاپن اور عضلاتی تال-میل نہیں بڑھتے۔ ان کے لئے مناسب کسرت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک پولس والا کئی گھنٹوں تک کھڑا رہ سکتا ہے۔ اس کا معنی ہے کہ اس میں برداشت کی قوت کافی ہے۔ لیکن دل اور پھیپھڑوں کی قوت بڑھانے کے لئے اور لچیلاپن بڑھانے کے لئے اس کو کسرت کرنے کی ضرورت پھر بھی ہے۔ آپ سب نے کرکٹ کا کھیل دیکھا ہوگا۔ اتنا دن بھر کھیلنے کے پہلے بھی یہ کھلاڑی کچھ فٹنس یعنی تندرستی کی کسرتیں کرتے ہیں، اس کا سبب یہی ہے۔

کھیل کود اور کسرت تاحیات کے لئے ہے، چھوڑیں نہیں

رسی کودنا: بچپن میں یا جوانی میں ہرکوئی کچھ نا کچھ کھیل لیتا ہے لیکن شادی-بیاہ‌ کے بعد یہ سلسلہ اکثر رک جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں 80-90 % لوگ اس عمر میں کھیل کود کو  لےکر سب سے دور رہتے ہیں۔ کوئی اگر یہ کہے کہ ہم نے جوانی میں بہت محنت اور کھیل کود کی ہے تو اس کا منافع جاری رہنا ممکن نہیں ہوتا۔ کھیل کود یا کسرت سے حاصل عضلاتی-قوت کچھ حد تک زندگی میں قائم رہتی ہے لیکن اس سے دیگر سارے منافع رک جاتے ہیں۔ موٹاپا بڑھ سکتا ہے، شریانوں میں چربی چپک جاتی ہے، جوڑ اور پٹھے سخت ہوتے جاتے ہیں، لچیلاپن کم ہو جاتا ہے اور مقابلے کی قوت بھی کم ہوتی ہے۔ اسلیے کسرت تاحیات ضروری ہے۔ لیکن یہ بھی ہے کی عمر اور اہلیت کے مطابق کسرت کھیل کود کے الگ الگ قسیں اپنا لیں۔ پھر بھی کسرت کے بنیادی عنصر بھولنا مناسب نہیں ہے۔ آج کی زندگی گزارنے کا طریقہ ہی اہم-ترین ہوتا ہے۔ بڑھاپے میں بھی کم ہی سہی، لیکن معینہ جسمانی کسرت کرتے رہنا ضروری ہے۔

کسرت کے بارے میں کچھ غلط-فہمیاں

  • کسرت اور کھیل کود صرف بچّوں اور جوان کے لئے ہے یہ ماننا درست نہیں۔ کسی بھی عمر میں کچھ نا کچھ کرنا ضروری ہے۔
  • کھانے کے بعد 2-3 گھنٹے کسرت نہ کریں یہ ایک ماننا ہے، جس کو کچھ سائنسی تصدیق ہے۔ جسم میں دو الگ اعصابی نظام چلتے ہیں ۔ ایک عضلات کے محرک کے لئے ہے اور دوسرا اندرونی اعضأ کے لئے ہے۔ یہ دونوں الگ الگ وقت حاوی ہوتے ہیں۔ کھانا اور نیند کے وقت اندرونی اعضأ کی اعصابی نظام زیادہ متحرک رہتا ہے۔ اس لئے کھانے کے بعدازاں 2-3 گھنٹے بھاری کسرت نا کریں تو اچھا ہوگا۔ اسی سبب ہم سوکر اٹھنے کے بعد یا سو کر بیدار ہونےکے بعد اسی لمحہ کھیل-کود کسرت کے لئے راضی نہیں ہوتے۔ جسم کو تبدیلی کے لئے کچھ وقت دینا پڑتا ہے۔ کسرت اسی کو کرنی چاہئیے جس کو پہلوان بننا ہے یہ بھی ایک غلط-فہمی ہے۔ پہلوان بننے کے لئے کئی گنا زیادہ کسرت کرنی پڑتی ہے، لیکن صحت اور لمبی عمر کے لئے ایک گھنٹے کا وقت کسرت کے لئے دینا  کافی ہوتا ہے۔
  • چلنے سے کافی کسرت ہوتی ہے یہ ماننا مناسب نہیں۔ ہاں اگر کوئی 1-2 گھنٹے چلتا ہے تو کچھ بن سکتا ہے۔ پھر بھی چلنے سے سارے جسم کو نہیں صرف پیر کو اور دل کو ہی فائدہ ہوتا ہے۔ اس میں ہاتھ اور پیٹھ کی عضلات کا زیادہ کام نہیں۔ ویسے ہی اس میں توانائی زیادہ نہیں لگتی اور وقت بھی زیادہ چلا جاتا ہے۔ اس کے بجائے دوڑنا، تیز چلنا، تیرنا، پہاڑ چڑھنا وغیرہ قسمیں زیادہ مفید ہیں۔ بیمار یا بوڑھے لوگوں کو یہ کسرت مناسب ہے، اوروں کو نہیں۔

مختصر میں سجھاؤ/مشورہ

  • آپ کو اگر امراضِ-قلب ہو تب اپنے ڈاکٹر سے صلاح کریں تبھی کسرت متعین کریں۔
  • ابتدا میں محنت کی عادت نہ ہونے سے 10-15 دن آہستہ آہستہ کسرت بڑھائیں۔ اس سے جسم نئی عادت قبول کرتا ہے۔ کسی بھی کھیل‌کے  پہلے ہلکی کسرت کرنی چاہئیے۔ اس سے جسم تیار ہوتا ہے۔
  • تھکانے والے کھیل یا محنت کے بعد جسم کو تھوڑا آرام دینا چاہئیے۔
  • کھانے کے بعد کم سے کم دو گھنٹے کسرت یا کھیل ٹالنا ٹھیک ہوتا ہے۔
  • حالتِ-حمل میں خاص الگ اور ہلکی کسرت کے طریقے کرنا چاہئیے۔
  • عمر اور موسم کے مطابق کسرت میں تبدیلی ضرور کریں۔
  • موسمِ-سرما میں زیادہ محنت ضرور کریں۔
  • کسرت ممکنہ طور پرصبح یا شام کو کریں۔ اگر یہ بس میں نہیں تو اپنے وقت کے مطابق کریں۔ لیکن کسرت کرنا نہ چھوڑیں۔
  • ہفتے میں کم سے کم چار دن ایروبی/ہواباش یعنی ایروبک کسرت کرنی چاہئیے۔ بچے تین دن لچیلاپن یا  طاقت کے لئے استعمال کریں۔
  • کسرت اور یوگامراقبہ کرنے کے لئے الگ الگ وقت چاہئیے۔ ان کو ساتھ ساتھ نہ کریں۔ دھیان رہے کی دونوں قسم میں الگ الگ اعصابی نظام کام کرتے ہیں۔
  • آپ کی ذاتی قوتِ-محنت اور رفتار سمجھ کر کھیل اور کسرت منتخب کریں۔ بلا وجہ دوسروں کے ساتھ ہوڑ نہ لگائیں۔
  • کھیل اور کسرت سے لطف پانا چاہئیے، دکھ یا درد نہیں۔ صرف کسرت کے مقابلے کھیل بہتر ہوتے ہیں۔ کھیلوں میں بھی ذاتی قسم سے اجتماعی کھیل بہتر ہے۔

ذرائع: ہندوستان صحت

Last Modified : 4/8/2020



© C–DAC.All content appearing on the vikaspedia portal is through collaborative effort of vikaspedia and its partners.We encourage you to use and share the content in a respectful and fair manner. Please leave all source links intact and adhere to applicable copyright and intellectual property guidelines and laws.
English to Hindi Transliterate